Tuesday, January 28, 2020
Wednesday, January 22, 2020
یہ غزل تو نہیں مگر
بے ضرر اتنے بھی ھم لوگ نہیں سرکار
پیٹ میں کچھ نہ ہو، منہ میں زباں رکھتے ہیں
آٹا، گھی، چینی سبھی کچھ پہنچ سے باہر ہوئیں
اب تو میٹھی بولی نہیں، تلخ زباں رکھتے ہیں
سبزی، فروٹ،دال،چاول دیگر اجناس
کچھ زیادہ نہیں اب تو صرف زیاں رکھتے ہیں
تعلیم کا جو حال ہے وہ کیا کہیں ھم
وزیر تعلیم میڑک پاس تو فیس زیادہ رکھتے ہیں
أسکی ہر بات پر گھبرانا نہیں اے عوام
نوٹس زیادہ لیتے اور کہتے قبر میں سکوں رکھتے ہیں
بیوی آفس میں، بس دودھ نہیں دے سکتے
ویسے تحویل میں بچوں کو میاں رکھتے ہیں
معیار یہ ہے کوئی وزیر پچاس سال سے کم نہیں
لیڈر خود بھی بوڑھے،عوام کو جواں رکھتے ہیں
سیاستدانوں کی بات کیا کریں جاناں
جذبہ انتقام زیادہ، معاملات ریاست ارزاں رکھتے ہیں
نرخ جو بڑھے گھر کے کرایے کے
شیریں تیرے شہر میں ھم فرسودہ مکاں رکھتے ہیں
Sunday, January 19, 2020
تڑپ،درکار،داد،وفا،درد،شعلٔہ،بیکار،دامن،تائب،پیغام،ستم،اول،لعزش
جب تڑپ درکار تھی، داد وفا دینے لگے
میں نے أن سے درد مانگا وہ دوا دینے لگے
شعلٔہ بیکار ہوں بجھنا ہی بہتر ہے مرا
آہ تم کیوں اپنے دامن کی ہوا دینے لگے
تیرے مجبوروں کو پہچنا تیرا پیغام ستم
اور بیچارے وہ کیا کہتے، دعا دینے لگے
اول اول لعزشیں بھی تھیں مری جن کو عزیز
احتیاطوں پر بھی اب تو وہ سزا دینے لگے
ترک پڑھنا کر دیا ھم نے تو زرمی ہا کلام
داد جب أس ہو سخن نا آشنا دینے لگے
Saturday, January 18, 2020
Friday, January 17, 2020
غزل
چھوڑو بھی، کیا کریں گے أسے آزما کے ھم
بدظن نہ ہوں گے أس سے تو دھوکا بھی کھا کے ھم
نظروں میں یہ سوال کہ تکلیف کیسے کی؟
آللہ!! اتنے غیر ہیں؟ بندے خدا کے
بےشرم بن کے آئے ہیں جب ڈل نہ رہ سکا
نادم بہت ہیں آپ کو صورت دکھا کے ھم
اب یاد ہے کسے؟؟ یہ کوئی آج کی ہے بات؟
البتہ ہنسں چکے ہیں کبھی کھلکھلا کے ھم
ہاں کیوں نہیں حضور-بڑے رحمدل ہیں آپ
خوش ہوتے ہوں گے ہنستے ہوؤں کو رلا کے ھم
معلوم یہ ہوا خبر آنے کی تھی غلط
فارغ ہوے جب أن جے لیے گھر سجا کے ھم
مردم شناس کہہ کے تو شرمندہ مت کرو
مداح کس قدر تھے تماری وفا کے ھم
زرمی اداۓ فرض ہی غم کا ہے کچھ علاج
سو سو طرح سے دیکھ چکے آزما کے ھم
Thursday, January 16, 2020
Sunday, January 12, 2020
Sunday, January 5, 2020
ھم ترے شہر میں فرسودہ مکاں رکھتے ہیں
زیر تخلیق مگر تازہ جہاں رکھتے ہیں
ھم سبک گام بھی ہیں، تیز نظر، بھی لیکن
فکر ہر لغزش ناقص نظران رکھتے ہیں
بوڑھی تعبیر کی بیمار فضا میں سے دوست
ھم ہیں وہ لوگ جو خوابوں کو جواں رکھتے ہیں
رشتہ سناٹے سے طوفان کا معلوم تو ہے؟
قائم آس شہر میں آپ امن و اماں رکھتے ہیں
عمر بھر گنتے رہے ھم ترے ماتھے کے شکن
اک یہی مسئلہ سود و زیاں رکھتے ہیں
پیر صاحب ہیں خفا ساقی کم سن سے فضول
کچھ مرید ایسے ہیں جو پیر جواں رکھتے ہیں
Subscribe to:
Posts (Atom)