انتظار
کسی بہانے سے کوئی جو میرا جی بہلاۓ
جدائی میں تری، یہ بھی ہے ناگوار مجھے
ہزار بار کا بیھٹا ہوں آزمودہ نصیب
ہزار ہو ترے وعدے کا اعتبار مجھے
ہر اجنبی کو بتاتا ہوں نام میں اپنا
ترے پیام کا کتنا ہے انتظار مجھے
کمال ہے یہ زوال شباب کا میرے
خزاں کی یاد دلاتی ہے ہر بہار مجھے
No comments:
Post a Comment